چھوڑیں مواد پر جائیں

ہائے شام کا بازار – ندیم سرور – 1995

22 اگست 2009

ہاۓ شام کا بازار
سجاد سے رونے کا سبب پوچھ رہا ہے
جو شام میں گزری ہے وہ سب پوچھ رہا ہے

وہ لاکھ تماشائ بے پردہ پھوپھی بہنیں
کیسے نہ لہو روئيں بیمار کی پھر آنکھیں
اس غم کی اذیت نے اسے مار دیا ہے

کس طرح قرار آۓ بیمار کو اے لوگوں
سر نیزوں پہ پیاروں کے آتے ہیں نظر جس کو
بے جرم مسافر کی یہ کیسی سزا ہے

آنکھوں سے ہے خوں جاری غمخوار ہے بیمار بھی
زنجیر ہے پیروں میں اور طوق بھی ہے بھاری
جلتی ہے زمیں ساری اور گرم ہوا ہے

تاخیر نہیں مانگی زنجیر نہیں بدلی
ساۓ میں نہیں بیٹھا پوشاک نہیں بدلی
ماں بہنوں کی خاطر وہ ردا مانگ رہا ہے

زنداں کے مصائب بھی ہر وقت رلاتے ہیں
اشکوں کو مگر اپنے زینب سے چھپاتے ہیں
مرجاۓ نہ زینب یہ کہیں سوچ رہا ہے

زنداں سے رہا ہو کے بھی زنداں میں ہیں سجاد
اک ننھی سی تربت جو وہاں کرتی ہے فریاد
مر کے بھی رہوں قید یہ کیا میری خطا ہے

یہ زخم بھی سجاد کو جینے نہیں دیتا
زخموں سے سکینہ کے جو چپکا رہا کرتہ
وہ خوں بھرا کرتہ ہی کفن اس کا بنا ہے

بازار میں دربار میں زنداں میں روۓ
چالیس برس موت کے ارمان میں روۓ
ریحان میرا مولا تڑپتا ہی رہا ہے

سجاد سے رونے کا سبب پوچھ رہا ہے
جو شام میں گزری ہے وہ سب پوچھ رہا ہے
ہاۓ شام کا بازار

تبصرہ کریں

کلام سے متعلق آپ کی رائے