ہائے شام کا بازار – ندیم سرور – 1995
ہاۓ شام کا بازار
سجاد سے رونے کا سبب پوچھ رہا ہے
جو شام میں گزری ہے وہ سب پوچھ رہا ہے
وہ لاکھ تماشائ بے پردہ پھوپھی بہنیں
کیسے نہ لہو روئيں بیمار کی پھر آنکھیں
اس غم کی اذیت نے اسے مار دیا ہے
کس طرح قرار آۓ بیمار کو اے لوگوں
سر نیزوں پہ پیاروں کے آتے ہیں نظر جس کو
بے جرم مسافر کی یہ کیسی سزا ہے
آنکھوں سے ہے خوں جاری غمخوار ہے بیمار بھی
زنجیر ہے پیروں میں اور طوق بھی ہے بھاری
جلتی ہے زمیں ساری اور گرم ہوا ہے
تاخیر نہیں مانگی زنجیر نہیں بدلی
ساۓ میں نہیں بیٹھا پوشاک نہیں بدلی
ماں بہنوں کی خاطر وہ ردا مانگ رہا ہے
زنداں کے مصائب بھی ہر وقت رلاتے ہیں
اشکوں کو مگر اپنے زینب سے چھپاتے ہیں
مرجاۓ نہ زینب یہ کہیں سوچ رہا ہے
زنداں سے رہا ہو کے بھی زنداں میں ہیں سجاد
اک ننھی سی تربت جو وہاں کرتی ہے فریاد
مر کے بھی رہوں قید یہ کیا میری خطا ہے
یہ زخم بھی سجاد کو جینے نہیں دیتا
زخموں سے سکینہ کے جو چپکا رہا کرتہ
وہ خوں بھرا کرتہ ہی کفن اس کا بنا ہے
بازار میں دربار میں زنداں میں روۓ
چالیس برس موت کے ارمان میں روۓ
ریحان میرا مولا تڑپتا ہی رہا ہے
سجاد سے رونے کا سبب پوچھ رہا ہے
جو شام میں گزری ہے وہ سب پوچھ رہا ہے
ہاۓ شام کا بازار